نحو
1
وزن عروضی وہ وزن ہے جس میں متحرک کے مقابلہ میں متحرک ہو -ساکن کے مقابلہ میں ساکن ہو حرکات کی خصوصیت کا بھی لحاظ نہ ہو، اصلی اور زائد کا بھی لحاظ نہ ہو۔ جیسے : شریف بروزن فَعُولٌ حوالہ : مقدمہ میزان الصرف میں (5) از حسن رضا سیالوی اعتراض : مقدمہ ، میزان الصرف میں وزن عروضی کی تعریف اور مثال میں تضاد ہے۔ مثالی تعریف کے خلاف ہے تعریف میں موجود ہے کہ اصلی اور زائد کا لحاظ نہ ہو " یعنی اصلی اور زائد آمنے سامنے نہ ہو اسی کے مقابلہ میں زائد نہ ہو۔ جبکہ مثال میں "شریف" کی "ی" فُعُول کے "و" کے مقابلہ میں ہے شریف میں "ش" " " "ف" اصلی ہیں کیونکہ یہ فعول میں "ف" "ع " "ل" کے مقابلہ میں ہے۔ اب اعتراض یہ ہے کہ شریف کی "ی" "فعول " کے "و" کے مقابلہ میں ہونے کی وجہ سے یہ مثال وزن عروضی میں کس طرح داخل ہو سکتی ہے۔ معترض ( حافظ احمد رضا رضوی از جامعه فردوسیہ رضویه) کیا یہ میرا اعتراض درست ہے
1 جون، 2025Hafiz Ahmad Raza rizvi

شہزاد عابد
راجن پور،روجھان
آپ کا اعتراض درست نہیں ہے
وزن عروض میں بس متحرک حرف کے مقابلے میں متحرک آئے اور ساکن کے مقابلے میں ساکن
اب یہ ضروری نہیں کہ حرف زائد زائد کے مقابلے میں اور اصلی اصلی کے مقابلے میں آئے
تعریف میں جو اصلی اور زائد کا لحاظ نا ہو اس کا مطلب یہ ہے
ا بلکہ زائد اصلی اور اصلی زائد کے مقابلے میں بھی آ سکتا ہے اور کسی مثال میں زائد زائد کے مقابلے میں بھی آ سکتا
یعنی حروف کی زیادت اور اصلیت کا لحاظ نہیں کیا جائے گا